حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت کا مسلک و نظریات اور علم

حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت کا مسلک و نظریات اور علم  
حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت نے اسلام کو پھیلانے اور برصغیر کے مسلمانوں کو تعلیم دینے کی خاطر اوچ میں یونیورسٹی قائم کی قدیم ز مانے میں لفظ خانقاہ آج کے لفظ یونیورسٹی کامترادف ہے اس وقت خانقاہ بخاری قا ئم کرنے کا مقصد یہ ہی تھا کہ اس علاقے میں کفر و شرق کومٹانا تھا اور عوام الناس میں رائج ان غلط نظریات کو مٹانا تھا جو بنیادی طور پر اس خطے میں ہندووں کے ذریعے رائج ہو گئے تھے اسی لئے بخارا سےشرک و غیر اسلامی رسومات کے خاتمے کے لئے مخدوم جہانیاں جہاں گشت موجودہ پاکستان تشریف لائے تھے یہ اس خطہ کی پہلی یونیورسٹی جس کی اثرات تمام برصغیر ہندو پاک تک پہنچے  
کے تمام اسلامی علاقوں میں مشہور ہوگئی اہل علم و طالب علم دور دور سے اوچ آتے اور شرک و بدعت کے خلاف دین حق کی تعلیم حاصل کرتے ان ہزاروں طالب علموں کی خوراک اور رہائیش کا انتطام یونیورسٹی کی جانب سے کیا جاتا
 حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت کا مسلک
، جامع العلوم(2) میں لکھا ہے حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت کا مسلک اہل سنت والجماعت تھا حضرت جلا ل الدین بخاری کے پوتے اور مخدوم
حضرت ناصر الدین بخاری کے بڑے بیٹے سید حامد کبیر بخاری کو دہلی کے بادشاہ  فیروز شاہ تغلق نے قنوج میں جاگیر دی اس طرح اوچ کے بخاری خاندان کی ایک شاخ قنوج میں جاکر مقیم ہوگئی ۔
حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت کا علم بڑا گہرا اور مطالعہ بہت وسیع تھا مسائل فقیہی میں ان کا مسلک اعتدال پر قائم تھا نزہتہ الخواطر میں لکھا ہے کہ حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت بڑے نکتہ رس عالم ، نہایت نیک صالح ، پارسا اورعبادت گزار تھے نیکی اور بھلائی کے جملہ امور میں حد درجہ کوشاں ریاضت کیش، دین دامن کش تھے،
جامع العلوم میں ہے کہ حضرت مخدوم قران حکیم کے علاوہ تفسیر مدارک ، صحاح ستہ، مشارق النوار، شراح کبیر ، چہل اسم، مشکواۃ مصابیح ،رسالہ مکیہ، فقہ اکبر، عوارف المعارف، اسراسدعوات ،صرف و نحو اور لغت و ادب اورادب کی بعض کتابوں کا درس باقائدگی کے ساتھ دیا کرتے تھے ۔ امام کے پیچھے قراٗت کے قائل تھے ۔ یہ اہل حدیث مسلک کے مطابق ہے فقہ حنفیہ میں اس پر عمل نہیں ہے
نماز جنازہ غائبانہ کے بھی قائل تھے۔ یہ اہل حدیث مسلک کے مطابق ہے فقہ حنفیہ میں اس پر عمل نہیں ہے
،فتویٰ امام ابو حنیفہ کی فقہ کے مطابق دیتے تھے. چونکہ عوام الناس کی اکثریت فقہ حنفیہ کی قائل تھی۔
کہا جاتا ہے کہ اردو کاپہلا تحریری جملہ بھی حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت ہی کا ہے جو انہوں نے اپنے خط میں تحریر کیا تھا
مسعود الدین شہاب ، اپنی کتاب،خطہ پاک
اوچ کے صفحہ نمبر 379 پر اس حوالے سے لکھتے ہیں کہ ٹھٹھہ میں برکت شیخ تھیا اک موا اک نہا( یعنی شیخ کی برکت سے ایک ختم ہوگیا اور ایک بچ گیا ،) کہا جاتا ہے جب ٹھٹہ کامحاصرہ سلطان محمد بن تغلق نے کہا جو کہ دہلی کے انتہائی سخت گیر حکمرانوں میں سے ایک شمارکیا گیا ہے حضرت جلا ل الدین بخاری معروف بمخدوم جہانیاں جہاں گشت کےمعتقدین میں شامل تھا 752 ھ میں محمد تغلق نے سندھ پرحملہ کیا مگر اس میں اس کو کامیابی نہیں حاصل ہوئی اور اس کا انتقال سندھ ہی میں ہوگیا اس کے بعد اس کے بھتیجے فیروز تغلق نے سندھ ہی میں اقتدار سنبھالا جس کے بعددہلی جاکراپنے اقتدار کو مضبوط بنا یا سلطان فیروز الدین تغلق کو حضرت جلا ل الدین بخاری معروف بمخدوم جہانیاں جہاں گشت سے بہت محبت تھی محمد تغلق کی موت اور فیروز تغلق کے اقتدار سنبھالنے کے موقع پر یہ الفاظ ٹھٹہ میں موجود عوام نے ادا کئے یہ الفاظ قدیم اردو کے ہیں یایہ الفاظ حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت ہی کے تھے یا ان کے مریدوں نے ان سے عقیدت کی بنا پر ادا کئے اس پر مزید تحقیقا ت کے نتیجے میں اس پر روشنی ڈالی جائے گی مگر یہ بات تحقیق سے ثابت ہے کہ اردو کا پہلا تحریری جملہ اسی موقع پر حضرت جلا ل الدین بخاری جہانیاں جہاں گشت ؒ کی مناسبت سے ادا کیا گیا تھا