حضرت جہانیاں جہان گشت رحمۃ اللہ علیہ کے سفروں کی تفصیلات اور آکسفورڈ یونیورسٹی پریس

آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی کتاب
سفر نامہ حضرت جہانیاں جہاں گشت 

حضرت جہانیاں جہان گشت رحمۃ اللہ علیہ کے سفروں کی تفصیلات کے  حوالے سے پاکستان کے ایک معروف پبلشر آکسفورڈ یونیورسٹی پریس  جو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کی پاکستانی شاخ ہے اور تدریسی کتابیں مہنگے داموں فروخت کرکے تعلیم کو محض ایک طبقے تک ہی محدود کرنے کے مشن میں مصروف کار ہے کی جانب سے  ایک کتاب سفر نامہ حضرت جہانیاں جہاں گشت  شائع کی گئی  ہے حیرت کی بات ہے کہ حضرت جہانیاں جہان گشت کے بارے مِیں جن محقیقن  اور اسکالرز نے تحقیقات کی ہیں  اس کتاب کو ان محقیقن  اور اسکالرز نے مسترد کیا ہے پروفیسر ایوب قادری نے جنہوں نے حضرت جہانیاں جہان گشت کے بارے میں تحقیقی کتاب  حضرت مخدوم جہانیاں جہاں گشت کے نام سے تحریر کی ہے اس سفر نامے کو مترد کرتے ہوئے  لکھا ہے کہ حضرت جہانیاں جہان گشت کے جو سفر نامے ملتے ہی٘ں  وہ قطعا ناقابل اعتبار ہیں ان میں بے سروپا من گھڑت حکایتیں اور دور ازکار قصے درج ہیں نہ واقعات کی کوئی ترتیب ہے نہ ممالک کی ترتیب ہے ہر جگہ کا بے ربط زکر ہے
 حضرت جہانیاں جہان گشت کے مستند ملفوظات جامع العلوم ، خزانہ جلالی  جواہر جلالی میں قران و حدیث اور فقہ حنفی پر مبنی جو تعلیمات درج ہیں ان کے بالکل برعکس ان سفرناموں کا انداز ہے اور پھر ان سفر ناموں کے اندراجات آپس میں بھی متضاد  اور مختلف ہیں خیال ہے کہ کسی شخص نے جہاں گشت کے لقب کو سامنے رکھتے ہوئے اپنے معتقدات کی روشنی میں ایک سفر نامہ گڑھ دیا ہے
پروفیسر ایوب قادری مزید لکھتے ہیں کہ انیسویں صدی عیسوی کے پنجاب کے مشہور صوفی بزرگ خواجہ غلام فرید نے بھی اس سفر نامے کو مجموعہ اکازیب قرار دیا ہے

 کاش کے آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے زمے دار اس سفر نامے کو شائع کرتے وقت اگر کچھ تحقیقات کرلیتے یا کسی بھی یونیورسٹی کے طلبا ء کے ذریعے اس کتاب کے بارے تحقیقات کروالیتے اگر چہ کے اس کا معاوضہ آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کو ادا کرنا پڑتا تو آکسفورڈ یونیورسٹی پریس کے نام پر اس طرح کا دھبا نہیں لگتا جس طرح کا اس نام نہاد کتاب کے شائع ہونے کے بعد لگا ہے۔